رپورٹ: سید سبطین شاہ
ناروے میں قائم مسلمانوں کے دینی اداروں اور مساجد کی مشترکہ تنظیم ’’اسلامک کونسل ناروے‘‘ کو مختلف مماملات میں سخت اختلافات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کونسل کو ملنے والی سرکاری امداد اور ہلال سرٹیفکیٹ کے بدلے ملنے والی بڑی رقوم بند ہوسکتی ہیں۔ اسلامک کونسل کے تحت ایک نقاب پہننے والی مسلمان خاتون کی بطور کمیونیکیشن آفیسر تقرری بھی کونسل کے اراکین کے مابین اختلافات کی وجہ ہے۔ ۳۲سالہ اس پردہ پوش خاتون لیلہ ھازیک کی خدمات باقاعدہ میرٹ پر اس سال کے شروع میں حاصل کی گئی تھیں۔ سرکاری اداروں کے ساتھ رابطہ، کاغذات کی تیاری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور اس خاتون کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس ایشو پر پہلے ہی وزارت ثقافت ناروے کونسل کی کچھ امداد کو معطل کر چکی ہے۔ بعض نارویجن سیاستدانوں نے اس تقرری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ایک نقاب پوش خاتون کی تقرری مسلمانوں اور رہتی دنیا کے مابین کس طرح مکالمے کو فروغ دی سکتی ہے؟نقاب کے معاملےسے قبل، کونسل کے اراکین کے مابین سیکرٹری کی تقرری بھی اختلافات کا باعث بن چکی ہے۔ کونسل کے سیکرٹری مہتاب افسر جو ایک پاکستانی نژاد نارویجن شہری ہیں، کی تقرری کو کچھ وقت قبل کونسل کے بعض اراکین نے چیلنج کیا لیکن کونسل کی جنرل اسمبلی نے کثرت رائے سے اس اعتراض کو مسترد کردیاتھا۔
یادرہے کہ مہتاب افسر جو ایک فعال سماجی شخصیت بھی ہیں، اسلامک کونسل کی طرف سے اکثر اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں اور میڈیا پر آکر بات کرتے ہیںدوسری طرف فوڈز کا کاروبار کرنے والی ایک بڑی فرم ’’نورٹورا‘‘ جو ہلال فوڈ کی سند کی مد میں اسلامک کونسل ناروے کو سالانہ ڈیڑھ ملین نارویجن کراون فیس ادا کرتی ہے، نے بھی خبردار کیاہے کہ اگرکونسل کے اندرونی معاملات درست نہ ہوئے تو وہ یہ بھاری فیس دینا بند کردے گی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسلامک کونسل ناروے وزارت ثقافت سے بھی پانچ لاکھ کراون کے قریب رقم مسلمانوں اور سوسائٹی کے دیگر طبقات کے مابین رابطے بہتر بنانے کے لیے لے چکی ہے۔ یہ رقم کونسل کو ملنے سالانہ سرکاری امداد کے علاوہ ہے۔ان معاملات پر وضاحت کے لیے وزارت ثقافت کے متعلقہ حکام نے اسلامک کونسل کے سیکرٹری مہتاب افسر کو جمعرات کے روز طلب کیاہے۔ بعض نارویجن سیاستدانوں کا کہناہے کہ کونسل کے اراکین اس صورتحال میں کس طرح نارویجن معاشرے میں مکالمے کو فروغ دے سکتے ہیں؟ اسلامک کونسل ناروے کے تحت بیالیس ادارے اور مساجد کام کررہی ہیں جن سے بیاسی ہزار مسلمان وابستہ ہیں۔ کونسل کے اراکین اس مشترکہ ادارے کے بورڈ کو دوسال کے لیے منتخب کرتے ہیں اور بورڈ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین، سیکرٹری، انچارج مالی امور اور اراکین کمیٹی پر مشتمل ہوتاہے۔ اس کے علاوہ کونسل کے کچھ تنخواہ دار ملازم بھی ہیں۔اس کونسل کا مقصد مسلمانوں کی زندگی کو اسلامی تعلیمات اور ناروے کے قوانین کے مطابق یقینی بنانا اور اس کے رکن اداروں کے قانونی حقوق اور مفادات کا تحفظ کرناہے۔اسلامک کونسل ناروے کی ویب سائیٹ کے مطابق، یہ کونسل ناروے میں مسلمانوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے مابین رابطے کو فروغ دینے کا بھی کام کرتی ہے۔ ناروے میں غیرملکی نژاد کمیونٹیز کے امور پر نظررکھنے والے نارویجن پاکستانی محد طارق کہتے ہیں، اگراسلامک کونسل ناروے نے اپنے اندرونی معاملات درست نہ کئے تو یہ ادارہ مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔ایک اور نارویجن پاکستانی شخصیت علی اصغرشاہد پر امید ہیں کہ اسلامک کونسل ناروے اپنے معاملات درست کرنےمیں کامیابی ہوجائے گی اور اس بات کا قومی امکان ہے کہ کونسل کو درپیش بحران جلد ختم ہوجائے۔